Search hadith by
Hadith Book
Search Query
Search Language
English Arabic Urdu
Search Type Basic    Case Sensitive
 

Sahih Bukhari

Oppressions

كتاب المظالم

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ، وَكَانَ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مُنَادِيًا يُنَادِي ‏"‏ أَلاَ إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ ‏"‏‏.‏ قَالَ فَقَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ اخْرُجْ فَأَهْرِقْهَا، فَخَرَجْتُ فَهَرَقْتُهَا، فَجَرَتْ فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ قَدْ قُتِلَ قَوْمٌ وَهْىَ فِي بُطُونِهِمْ‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا‏}‏ الآيَةَ‏.‏


Chapter: Spilling wine on the way

Narrated Anas: I was the butler of the people in the house of Abu Talha, and in those days drinks were prepared from dates. Allah's Messenger (PBUH) ordered somebody to announce that alcoholic drinks had been prohibited. Abu Talha ordered me to go out and spill the wine. I went out and spilled it, and it flowed in the streets of Medina. Some people said, "Some people were killed and wine was still in their stomachs." On that the Divine revelation came:-- "On those who believe And do good deeds There is no blame For what they ate (in the past)." (5.93) ھم سے ابویحییٰ محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ، کھا ھم کو عفان بن مسلم نے خبر دی ، کھا ھم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، کھا ھم سے ثابت نے بیان کیا ، اور ان سے انس رضی اللھ عنھ نے کھ میں ابوطلحھ رضی اللھ عنھ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رھا تھا ۔ ان دنوں کھجور ھی کی شراب پیا کرتے تھے ۔ ( پھر جو نھی شراب کی حرمت پر آیت قرآنی اتری ) تو رسول کریم صلی اللھ علیھ وسلم نے ایک منادی سے ندا کرائی کھ شراب حرام ھو گئی ھے ۔ انھوں نے کھا ( یھ سنتے ھی ) ابوطلحھ رضی اللھ عنھ نے کھا کھ باھر لے جا کر اس شراب کو بھا دے ۔ چنانچھ میں نے باھر نکل کر ساری شراب بھادی ۔ شراب مدینھ کی گلیوں میں بھنے لگی ، تو بعض لوگوں نے کھا ، یوں معلوم ھوتا ھے کھ بھت سے لوگ اس حالت میں قتل کر دیئے گئے ھیں کھ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی ۔ پھر اللھ تعالیٰ نے یھ آیت نازل فرمائی ” وھ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے ، ان پر ان چیزوں کا کوئی گناھ نھیں ھے ۔ جو پھلے کھا چکے ھیں ۔ ( آخر آیت تک )

Share »

Book reference: Sahih Bukhari Book 46 Hadith no 2464
Web reference: Sahih Bukhari Volume 3 Book 43 Hadith no 644


حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ ‏"‏‏.‏ فَقَالُوا مَا لَنَا بُدٌّ، إِنَّمَا هِيَ مَجَالِسُنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلاَّ الْمَجَالِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهَا ‏"‏ قَالُوا وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ قَالَ ‏"‏ غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الأَذَى، وَرَدُّ السَّلاَمِ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهْىٌ عَنِ الْمُنْكَرِ ‏"‏‏.‏

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: The Prophet (PBUH) said, "Beware! Avoid sitting on he roads (ways)." The people said, "There is no way out of it as these are our sitting places where we have talks." The Prophet (PBUH) said, "If you must sit there, then observe the rights of the way." They asked, "What are the rights of the way?" He said, "They are the lowering of your gazes (on seeing what is illegal to look at), refraining from harming people, returning greetings, advocating good and forbidding evil." ھم سے معاذ بن فضالھ نے بیان کیا ، انھوں نے کھا ھم سے ابوعمر حفص بن میسرھ نے بیان کیا ، اور ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا ، اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللھ عنھ نے بیان کیا کھ نبی کریم صلی اللھ علیھ وسلم نے فرمایا راستوں میں بیٹھنے سے بچو ۔ صحابھ نے عرض کیا کھ ھم تو وھاں بیٹھنے پر مجبور ھیں ۔ وھی ھمارے بیٹھنے کی جگھ ھوتی ھے کھ جھاں ھم باتیں کرتے ھیں ۔ اس پر آپ صلی اللھ علیھ وسلم نے فرمایا کھ اگر وھاں بیٹھنے کی مجبوری ھی ھے تو راستے کا حق بھی ادا کرو ۔ صحابھ نے پوچھا اور راستے کا حق کیا ھے ؟ آپ صلی اللھ علیھ وسلم نے فرمایا ، نگاھ نیچی رکھنا ، کسی کو ایذاء دینے سے بچنا ، سلام کا جواب دینا ، اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ۔

Share »

Book reference: Sahih Bukhari Book 46 Hadith no 2465
Web reference: Sahih Bukhari Volume 3 Book 43 Hadith no 645


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَىٍّ، مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ بَيْنَا رَجُلٌ بِطَرِيقٍ، اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا فَشَرِبَ، ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ مِنِّي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ، فَمَلأَ خُفَّهُ مَاءً، فَسَقَى الْكَلْبَ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ، فَغَفَرَ لَهُ ‏"‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ لأَجْرًا فَقَالَ ‏"‏ فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ ‏"‏‏.‏


Chapter: The digging of wells on the ways

Narrated Abu Huraira: The Prophet (PBUH) said, "A man felt very thirsty while he was on the way, there he came across a well. He went down the well, quenched his thirst and came out. Meanwhile he saw a dog panting and licking mud because of excessive thirst. He said to himself, "This dog is suffering from thirst as I did." So, he went down the well again and filled his shoe with water and watered it. Allah thanked him for that deed and forgave him. The people said, "O Allah's Messenger (PBUH)! Is there a reward for us in serving the animals?" He replied: "Yes, there is a reward for serving any animate (living being)." (See Hadith No. 551) ھم سے عبداللھ بن مسلمھ نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے ، ان سے ابوبکر کے غلام سمی نے ، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوھریرھ رضی اللھ عنھ نے کھ نبی کریم صلی اللھ علیھ وسلم نے فرمایا ، ایک شخص راستے میں سفر کر رھا تھا کھ اسے پیاس لگی ۔ پھر اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وھ اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا ۔ جب باھر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ھانپ رھا تھا اور پیاس کی سختی سے کیچڑ چاٹ رھا تھا ۔ اس شخص نے سوچا کھ اس وقت یھ کتا بھی پیاس کی اتنی ھی شدت میں مبتلا ھے جس میں میں تھا ۔ چنانچھ وھ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا ۔ اللھ تعالیٰ کے ھاں اس کا یھ عمل مقبول ھوا ۔ اور اس کی مغفرت کر دی گئی ۔ صحابھ نے پوچھا ، یا رسول اللھ کیا جانوروں کے سلسلھ میں بھی ھمیں اجر ملتا ھے ؟ تو آپ صلی اللھ علیھ وسلم نے فرمایا کھ ھاں ، ھر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ھے ۔

Share »

Book reference: Sahih Bukhari Book 46 Hadith no 2466
Web reference: Sahih Bukhari Volume 3 Book 43 Hadith no 646


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَشْرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى إِنِّي أَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلاَلَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ ‏"‏‏.‏


Chapter: Looking or not looking upon other houses

Narrated Usama bin Zaid: Once the Prophet (PBUH) stood at the top of one of the castles (or higher buildings) of Medina and said, "Do you see what I see? No doubt I am seeing the spots of afflictions amongst your houses as numerous as the spots where raindrops fall (during a heavy rain). (See Hadith No. 102) ھم سے عبداللھ بن محمد نے بیان کیا ، انھوں نے کھا ھم سے ابن عیینھ نے بیان کیا ، انھوں نے کھا کھ ھم سے زھری نے بیان کیا ، ان سے عروھ نے بیان کیا ، ان سے اسامھ بن زید رضی اللھ عنھما نے بیان کیا ، کھ نبی کریم صلی اللھ علیھ وسلم مدینھ کے ایک بلند مکان پر چڑھے ۔ پھر فرمایا ، کیا تم لوگ بھی دیکھ رھے ھو جو میں دیکھ رھا ھوں کھ ( عنقریب ) تمھارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رھے ھوں گے جیسے بارش برستی ھے ۔

Share »

Book reference: Sahih Bukhari Book 46 Hadith no 2467
Web reference: Sahih Bukhari Volume 3 Book 43 Hadith no 647


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ لَهُمَا ‏{‏إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا‏}‏ فَحَجَجْتُ مَعَهُ فَعَدَلَ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ حَتَّى جَاءَ، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ مِنَ الإِدَاوَةِ، فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اللَّتَانِ قَالَ لَهُمَا ‏{‏إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ‏}‏ فَقَالَ وَاعَجَبِي لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِيثَ يَسُوقُهُ، فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ وَجَارٌ لِي مِنَ الأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَهْىَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ مِنْ خَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الأَمْرِ وَغَيْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الأَنْصَارِ إِذَا هُمْ قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، فَصِحْتُ عَلَى امْرَأَتِي، فَرَاجَعَتْنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لَيُرَاجِعْنَهُ، وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ‏.‏ فَأَفْزَعَنِي، فَقُلْتُ خَابَتْ مَنْ فَعَلَ مِنْهُنَّ بِعَظِيمٍ‏.‏ ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَىَّ ثِيَابِي، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ أَىْ حَفْصَةُ، أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ فَقَالَتْ نَعَمْ‏.‏ فَقُلْتُ خَابَتْ وَخَسِرَتْ، أَفَتَأْمَنُ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم فَتَهْلِكِينَ لاَ تَسْتَكْثِرِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلاَ تُرَاجِعِيهِ فِي شَىْءٍ وَلاَ تَهْجُرِيهِ، وَاسْأَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلاَ يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ يُرِيدُ عَائِشَةَ ـ وَكُنَّا تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ النِّعَالَ لِغَزْوِنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَرَجَعَ عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا، وَقَالَ أَنَائِمٌ هُوَ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ‏.‏ وَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ‏.‏ قُلْتُ مَا هُوَ أَجَاءَتْ غَسَّانُ قَالَ لاَ، بَلْ أَعْظَمُ مِنْهُ وَأَطْوَلُ، طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نِسَاءَهُ‏.‏ قَالَ قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ هَذَا يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ، فَجَمَعْتُ عَلَىَّ ثِيَابِي، فَصَلَّيْتُ صَلاَةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَدَخَلَ مَشْرُبَةً لَهُ فَاعْتَزَلَ فِيهَا، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَإِذَا هِيَ تَبْكِي‏.‏ قُلْتُ مَا يُبْكِيكِ أَوَلَمْ أَكُنْ حَذَّرْتُكِ أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ لاَ أَدْرِي هُوَ ذَا فِي الْمَشْرُبَةِ‏.‏ فَخَرَجْتُ، فَجِئْتُ الْمِنْبَرَ، فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِيلاً ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَجِئْتُ الْمَشْرُبَةَ الَّتِي هُوَ فِيهَا فَقُلْتُ لِغُلاَمٍ لَهُ أَسْوَدَ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ‏.‏ فَدَخَلَ، فَكَلَّمَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ ذَكَرْتُكَ لَهُ، فَصَمَتَ، فَانْصَرَفْتُ حَتَّى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْغُلاَمَ‏.‏ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ‏.‏ فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ مُنْصَرِفًا، فَإِذَا الْغُلاَمُ يَدْعُونِي قَالَ أَذِنَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ، قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ، مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ طَلَّقْتَ نِسَاءَكَ فَرَفَعَ بَصَرَهُ إِلَىَّ، فَقَالَ ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ ثُمَّ قُلْتُ ـ وَأَنَا قَائِمٌ أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ رَأَيْتَنِي، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى قَوْمٍ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَذَكَرَهُ، فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ قُلْتُ لَوْ رَأَيْتَنِي، وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لاَ يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ـ يُرِيدُ عَائِشَةَ ـ فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَجَلَسْتُ حِينَ رَأَيْتُهُ تَبَسَّمَ، ثُمَّ رَفَعْتُ بَصَرِي فِي بَيْتِهِ، فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ غَيْرَ أَهَبَةٍ ثَلاَثَةٍ‏.‏ فَقُلْتُ ادْعُ اللَّهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ، فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْيَا، وَهُمْ لاَ يَعْبُدُونَ اللَّهَ، وَكَانَ مُتَّكِئًا‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ أَوَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي‏.‏ فَاعْتَزَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْحَدِيثِ حِينَ أَفْشَتْهُ حَفْصَةُ إِلَى عَائِشَةَ، وَكَانَ قَدْ قَالَ ‏"‏ مَا أَنَا بِدَاخِلٍ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا ‏"‏‏.‏ مِنْ شِدَّةِ مَوْجَدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حِينَ عَاتَبَهُ اللَّهُ‏.‏ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لاَ تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، وَإِنَّا أَصْبَحْنَا لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، أَعُدُّهَا عَدًّا‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ‏"‏‏.‏ وَكَانَ ذَلِكَ الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ‏.‏ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأُنْزِلَتْ آيَةُ التَّخْيِيرِ فَبَدَأَ بِي أَوَّلَ امْرَأَةٍ، فَقَالَ ‏"‏ إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، وَلاَ عَلَيْكِ أَنْ لاَ تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ ‏"‏‏.‏ قَالَتْ قَدْ أَعْلَمُ أَنَّ أَبَوَىَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِكَ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ إِنَّ اللَّهَ قَالَ ‏{‏يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏ عَظِيمًا‏}‏ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَىَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ‏.‏ ثُمَّ خَيَّرَ نِسَاءَهُ، فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ‏.‏

Narrated `Abdullah bin `Abbas: I had been eager to ask `Umar about the two ladies from among the wives of the Prophet (PBUH) regarding whom Allah said (in the Qur'an saying): If you two (wives of the Prophet (PBUH) namely Aisha and Hafsa) turn in repentance to Allah your hearts are indeed so inclined (to oppose what the Prophet (PBUH) likes) (66.4), till performed the Hajj along with `Umar (and on our way back from Hajj) he went aside (to answer the call of nature) and I also went aside along with him carrying a tumbler of water. When he had answered the call of nature and returned. I poured water on his hands from the tumbler and he performed ablution. I said, "O Chief of the believers! ' Who were the two ladies from among the wives of the Prophet (PBUH) to whom Allah said: 'If you two return in repentance (66.4)? He said, "I am astonished at your question, O Ibn `Abbas. They were Aisha and Hafsa." Then `Umar went on relating the narration and said. "I and an Ansari neighbor of mine from Bani Umaiya bin Zaid who used to live in `Awali Al-Medina, used to visit the Prophet (PBUH) in turns. He used to go one day, and I another day. When I went I would bring him the news of what had happened that day regarding the instructions and orders and when he went, he used to do the same for me. We, the people of Quraish, used to have authority over women, but when we came to live with the Ansar, we noticed that the Ansari women had the upper hand over their men, so our women started acquiring the habits of the Ansari women. Once I shouted at my wife and she paid me back in my coin and I disliked that she should answer me back. She said, 'Why do you take it ill that I retort upon you? By Allah, the wives of the Prophet (PBUH) retort upon him, and some of them may not speak with him for the whole day till night.' What she said scared me and I said to her, 'Whoever amongst them does so, will be a great loser.' Then I dressed myself and went to Hafsa and asked her, 'Does any of you keep Allah's Messenger (PBUH) angry all the day long till night?' She replied in the affirmative. I said, 'She is a ruined losing person (and will never have success)! Doesn't she fear that Allah may get angry for the anger of Allah's Messenger (PBUH) and thus she will be ruined? Don't ask Allah's Messenger (PBUH) too many things, and don't retort upon him in any case, and don't desert him. Demand from me whatever you like, and don't be tempted to imitate your neighbor (i.e. `Aisha) in her behavior towards the Prophet), for she (i.e. Aisha) is more beautiful than you, and more beloved to Allah's Messenger (PBUH). In those days it was rumored that Ghassan, (a tribe living in Sham) was getting prepared their horses to invade us. My companion went (to the Prophet (PBUH) on the day of his turn, went and returned to us at night and knocked at my door violently, asking whether I was sleeping. I was scared (by the hard knocking) and came out to him. He said that a great thing had happened. I asked him: What is it? Have Ghassan come? He replied that it was worse and more serious than that, and added that Allah's Apostle had divorced all his wives. I said, Hafsa is a ruined loser! I expected that would happen some day.' So I dressed myself and offered the Fajr prayer with the Prophet. Then the Prophet (PBUH) entered an upper room and stayed there alone. I went to Hafsa and found her weeping. I asked her, 'Why are you weeping? Didn't I warn you? Have Allah's Messenger (PBUH) divorced you all?' She replied, 'I don't know. He is there in the upper room.' I then went out and came to the pulpit and found a group of people around it and some of them were weeping. Then I sat with them for some time, but could not endure the situation. So I went to the upper room where the Prophet (PBUH) was and requested to a black slave of his: "Will you get the permission of (Allah's Apostle) for `Umar (to enter)? The slave went in, talked to the Prophet (PBUH) about it and came out saying, 'I mentioned you to him but he did not reply.' So, I went and sat with the people who were sitting by the pulpit, but I could not bear the situation, so I went to the slave again and said: "Will you get he permission for `Umar? He went in and brought the same reply as before. When I was leaving, behold, the slave called me saying, "Allah's Messenger (PBUH) has granted you permission." So, I entered upon the Prophet and saw him lying on a mat without wedding on it, and the mat had left its mark on the body of the Prophet, and he was leaning on a leather pillow stuffed with palm fires. I greeted him and while still standing, I said: "Have you divorced your wives?' He raised his eyes to me and replied in the negative. And then while still standing, I said chatting: "Will you heed what I say, 'O Allah's Messenger (PBUH)! We, the people of Quraish used to have the upper hand over our women (wives), and when we came to the people whose women had the upper hand over them..." `Umar told the whole story (about his wife). "On that the Prophet (PBUH) smiled." `Umar further said, "I then said, 'I went to Hafsa and said to her: Do not be tempted to imitate your companion (`Aisha) for she is more beautiful than you and more beloved to the Prophet.' The Prophet (PBUH) smiled again. When I saw him smiling, I sat down and cast a glance at the room, and by Allah, I couldn't see anything of importance but three hides. I said (to Allah's Messenger (PBUH)) "Invoke Allah to make your followers prosperous for the Persians and the Byzantines have been made prosperous and given worldly luxuries, though they do not worship Allah?' The Prophet (PBUH) was leaning then (and on hearing my speech he sat straight) and said, 'O Ibn Al-Khattab! Do you have any doubt (that the Hereafter is better than this world)? These people have been given rewards of their good deeds in this world only.' I asked the Prophet (PBUH) . 'Please ask Allah's forgiveness for me. The Prophet (PBUH) did not go to his wives because of the secret which Hafsa had disclosed to `Aisha, and he said that he would not go to his wives for one month as he was angry with them when Allah admonished him (for his oath that he would not approach Maria). When twenty-nine days had passed, the Prophet (PBUH) went to Aisha first of all. She said to him, 'You took an oath that you would not come to us for one month, and today only twenty-nine days have passed, as I have been counting them day by day.' The Prophet (PBUH) said, 'The month is also of twenty-nine days.' That month consisted of twenty-nine days. `Aisha said, 'When the Divine revelation of Choice was revealed, the Prophet (PBUH) started with me, saying to me, 'I am telling you something, but you need not hurry to give the reply till you can consult your parents." `Aisha knew that her parents would not advise her to part with the Prophet (PBUH) . The Prophet (PBUH) said that Allah had said: 'O Prophet! Say To your wives; If you desire The life of this world And its glitter, ... then come! I will make a provision for you and set you free In a handsome manner. But if you seek Allah And His Apostle, and The Home of the Hereafter, then Verily, Allah has prepared For the good-doers amongst you A great reward.' (33.28) `Aisha said, 'Am I to consult my parents about this? I indeed prefer Allah, His Apostle, and the Home of the Hereafter.' After that the Prophet (PBUH) gave the choice to his other wives and they also gave the same reply as `Aisha did." ھم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کھا ھم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے اور ان سے ابن شھاب نے کھ مجھے عبیداللھ بن عبداللھ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللھ بن عباس رضی اللھ عنھما نے بیان کیا کھ میں ھمیشھ اس بات کا آروز مند رھتا تھا کھ حضرت عمر رضی اللھ عنھ سے آنحضرت صلی اللھ علیھ وسلم کی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللھ تعالیٰ ٰنے ( سورۃ التحریم میں ) فرمایا ھے ” اگر تم دونوں اللھ کے سامنے توبھ کرو ( تو بھتر ھے ) کھ تمھارے دل بگڑ گئے ھیں ۔ “ پھر میں ان کے ساتھ حج کو گیا ۔ عمر رضی اللھ عنھ راستے سے قضائے حاجت کے لیے ھٹے تو میں بھی ان کے ساتھ ( پانی کا ایک ) چھاگل لے کر گیا ۔ پھر وھ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے ۔ اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ھاتھوں پر چھاگل سے پانی ڈالا ۔ اور انھوں نے وضو کیا ، پھر میں نے پوچھا ، یا امیرالمؤمنین ! نبی کریم صلی اللھ علیھ وسلم کی بیویوں میں وھ دو خواتین کون سی ھیں جن کے متعلق اللھ تعالیٰ نے یھ فرمایا کھ ” تم دونوں اللھ کے سامنے توبھ کرو “ انھوں نے فرمایا ، ابن عباس ! تم پر حیرت ھے ۔ وھ تو عائشھ اور حفصھ ( رضی اللھ عنھما ) ھیں ۔ پھر عمر رضی اللھ عنھ میری طرف متوجھ ھو کر پورا واقعھ بیان کرنے لگے ۔ آپ نے بتلایا کھ بنوامیھ بن زید کے قبیلے میں جو مدینھ سے ملا ھوا تھا ۔ میں اپنے ایک انصاری پڑوسی کے ساتھ رھتا تھا ۔ ھم دونوں نے نبی کریم صلی اللھ علیھ وسلم کی خدمت میں حاضری کی باری مقرر کر رکھی تھی ۔ ایک دن وھ حاضر ھوتے اور ایک دن میں ۔ جب میں حاضری دیتا تو اس دن کی تمام خبریں وغیرھ لاتا ۔ ( اور ان کو سناتا ) اور جب وھ حاضر ھوتے تو وھ بھی اسی طرح کرتے ۔ ھم قریش کے لوگ ( مکھ میں ) اپنی عورتوں پر غالب رھا کرتے تھے ۔ لیکن جب ھم ( ھجرت کر کے ) انصار کے یھاں آئے تو انھیں دیکھا کھ ان کی عورتیں خود ان پر غالب تھیں ۔ ھماری عورتوں نے بھی ان کا طریقھ اختیار کرنا شروع کر دیا ۔ میں نے ایک دن اپنی بیوی کو ڈانٹا تو انھوں نے بھی اس کا جواب دیا ۔ ان کا یھ جواب مجھے ناگوار معلوم ھوا ۔ لیکن انھوں نے کھا کھ میں اگر جواب دیتی ھوں تو تمھیں ناگواری کیوں ھوتی ھے ۔ قسم اللھ کی نبی کریم صلی اللھ علیھ وسلم کی ازواج تک آپ کو جواب دے دیتی ھیں اور بعض بیویاں تو آپ سے پورے دن اور پوری رات خفا رھتی ھیں ۔ اس بات سے میں بھت گھبرایا اور میں نے کھا کھ ان میں سے جس نے بھی ایسا کیا ھو گا وھ بھت بڑے نقصان اور خسارے میں ھے ۔ اس کے بعد میں نے کپڑے پھنے اور حفصھ رضی اللھ عنھ ( حضرت عمر رضی اللھ عنھ کی صاحبزادی اور ام المؤمنین ) کے پاس پھنچا اور کھا اے حفصھ ! کیا تم میں سے کوئی نبی کریم صلی اللھ علیھ وسلم سے پورے دن رات تک ناراض رھتی ھیں ۔ انھوں نے کھا کھ ھاں ! میں بول اٹھا کھ پھر تو وھ تباھی اور نقصان میں رھیں ۔ کیا تمھیں اس سے امن ھے کھ اللھ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللھ علیھ وسلم کی خفگی کی وجھ سے ( تم پر ) غصھ ھو جاے اور تم ھلاک ھو جاؤ ۔ رسول اللھ صلی اللھ علیھ وسلم سے زیادھ چیزوں کا مطالبھ ھرگز نھ کیا کرو ، نھ کسی معاملھ میں آپ صلی اللھ علیھ وسلم کی کسی بات کا جواب دو اور نھ آپ پر خفگی کا اظھار ھونے دو ، البتھ جس چیز کی تمھیں ضرورت ھو ، وھ مجھ سے مانگ لیا کرو ، کسی خود فریبی میں مبتلا نھ رھنا ، تمھاری یھ پڑوسن تم سے زیادھ جمیل اور نظیف ھیں اور رسول اللھ صلی اللھ علیھ وسلم کوزیادھ پیاری بھی ھیں ۔ آپ کی مراد عائشھ رضی اللھ عنھا سے تھی ۔ حضرت عمر رضی اللھ عنھ نے کھا ، ان دنوں یھ چرچا ھو رھا تھا کھ غسان کے فوجی ھم سے لڑنے کے لیے گھوڑوں کو سم لگا رھے ھیں ۔ میرے پڑوسی ایک دن اپنی باری پر مدینھ گئے ھوئے تھے ۔ پھر عشاء کے وقت واپس لوٹے ۔ آ کر میرا دروازھ انھوں نے بڑی زور سے کھٹکھٹایا ، اور کھا کیا آپ سو گئے ھیں ؟ میں بھت گھبرایا ھوا باھر آیا انھوں نے کھا کھ ایک بھت بڑا حادثھ پیش آ گیا ھے ۔ میں نے پوچھا کیا ھوا ؟ کیا غسان کا لشکر آ گیا ؟ انھوں نے کھا بلکھ اس سے بھی بڑا اور سنگین حادثھ ، وھ یھ کھ رسول اللھ صلی الل علیھ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ۔ یھ سن کر عمر رضی اللھ عنھ نے فرمایا ، حفصھ تو تباھ و براد ھو گئی ۔ مجھے تو پھلے ھی کھٹکا تھا کھ کھیں ایسا نھ ھو جائے ( عمر رضی اللھ عنھ نے کھا ) پھر میں نے کپڑے پھنے ۔ صبح کی نماز رسول کریم صلی اللھ علیھ وسلم کے ساتھ پڑھی ( نماز پڑھتے ھی ) آنحضرت صلی اللھ علیھ وسلم اپنے بالا خانھ میں تشریف لے گئے اور وھیں تنھائی اختیار کر لی ۔ میں حفصھ کے یھاں گیا ، دیکھا تو وھ رو رھی تھیں ، میں نے کھا ، رو کیوں رھی ھو ؟ کیا پھلے ھی میں نے تمھیں نھیں کھھ دیا تھا ؟ کیا رسول اللھ صلی اللھ علیھ وسلم نے تم سب کو طلاق دے دی ھے ؟ انھوں نے کھا کھ مجھے کچھ معلوم نھیں ۔ آپ بالاخانھ میں تشریف رکھتے ھیں ۔ پھر میں باھر نکلا اور منبر کے پاس آیا ۔ وھاں کچھ لوگ موجود تھے اور بعض رو بھی رھے تھے ۔ تھوڑی دیر تو میں ان کے ساتھ بیٹھا رھا ۔ لیکن مجھ پر رنج کا غلبھ ھوا ، اور میں بالاخانے کے پاس پھنچا ، جس میں آپ صلی اللھ علیھ وسلم تشریف رکھتے تھے ۔ میں نے آپ صلی اللھ علیھ وسلم کے ایک سیاھ غلام سے کھا ، ( کھ حضرت صلی اللھ علیھ وسلم سے کھو ) کھ عمر اجازت چاھتا ھے ۔ وھ غلام اندر گیا اور آپ سے گفتگو کر کے واپس آیا اور کھا کھ میں نے آپ کی بات پھنچا دی تھی ، لیکن آنحضرت صلی اللھ علیھ وسلم خاموش ھو گئے ، چنانچھ میں واپس آ کر انھیں لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے ۔ پھر مجھ پر رنج غالب آیا اور میں دوبارھ آیا ۔ لیکن اس دفعھ بھی وھی ھوا ۔ پھر آ کر انھیں لوگوں میں بیٹھ گیا جو منبر کے پاس تھے ۔ لیکن اس مرتبھ پھر مجھ سے نھیں رھا گیا اور میں نے غلام سے آ کر کھا ، کھ عمر کے لیے اجازت چاھو ۔ لیکن بات جوں کی توں رھی ۔ جب میں واپس ھو رھا تھا کھ غلام نے مجھ کو پکارا اور کھا کھ رسول اللھ صلی اللھ علیھ وسلم نے آپ کو اجازت دے دی ھے ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ھوا تو آپ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ھوئے تھے ۔ جس پر کوئی بستر بھی نھیں تھا ۔ اس لیے چٹائی کے ابھرے ھوئے حصوں کا نشان آپ کے پھلو میں پڑ گیا تھا ۔ آپ اس وقت ایک ایسے تکیے پر ٹیک لگائے ھوئے تھے جس کے اندر کھجور کی چھال بھری گئی تھی ۔ میں نے آپ کو سلام کیا اورکھڑے ھی کھڑے عرض کی ، کھ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ھے ؟ آپ نے نگاھ میری طرف کر کے فرمایا کھ نھیں ۔ میں نے آپ کے غم کو ھلکا کرنے کی کوشش کی اور کھنے لگا.... اب بھی میں کھڑا ھی تھا.... یا رسول اللھ ! آپ جانتے ھی ھیں کھ ھم قریش کے لوگ اپنی بیویوں پر غالب رھتے تھے ، لیکن جب ھم ایک ایسی قوم میں آ گئے جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں ، پھر حضرت عمر رضی اللھ عنھ نے تفصیل ذکر کی ۔ اس بات پر رسول کریم صلی اللھ علیھ وسلم مسکرا دیئے ۔ پھر میں نے کھا میں حفصھ کے یھاں بھی گیا تھا اور اس سے کھھ آیا تھا کھ کھیں کسی خود فریبی میں نھ مبتلا رھنا ۔ یھ تمھاری پڑوسن تم سے زیادھ خوبصورت اور پاک ھیں اور رسول اللھ صلی اللھ علیھ وسلم کو زیادھ محبوب بھی ھیں ۔ آپ عائشھ رضی اللھ عنھا کی طرف اشارھ کر رھے تھے ۔ اس با ت پر آپ دوبارھ مسکرا دیئے ۔ جب میں نے آپ کو مسکراتے دیکھا ، تو ( آپ کے پاس ) بیٹھ گیا ۔ اور آپ کے گھر میں چاروں طرف دیکھنے لگا ۔ بخدا ! سوا تین کھالوں کے اور کوئی چیز وھاں نظر نھ آئی ۔ میں نے کھا ۔ یا رسول اللھ ! آپ اللھ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کھ وھ آپ کی امت کو کشادگی عطا فرما دے ۔ فارس اور روم کے لوگ تو پوری فراخی کے ساتھ رھتے ھیں ۔ دنیا انھیں خوب ملی ھوئی ھے ۔ حالانکھ وھ اللھ تعالیٰ کی عبادت بھی نھیں کرتے ۔ آنحضرت صلی اللھ علیھ وسلم ٹیک لگائے ھوئے تھے ۔ آپ صلی اللھ علیھ وسلم نے فرمایا ، اے خطاب کے بیٹے ! کیا تمھیں ابھی کچھ شبھ ھے ؟ ( تو دنیا کی دولت کو اچھی سمجھتا ھے ) یھ تو ایسے لوگ ھیں کھ ان کے اچھے اعمال ( جو وھ معاملات کی حد تک کرتے ھیں ان کی جزا ) اسی دنیا میں ان کو دے دی گئی ھے ۔ ( یھ سن کر ) میں بول اٹھایا رسول اللھ ! میرے لیے اللھ سے مغفرت کی دعا کیجئے ۔ تو نبی کریم صلی اللھ علیھ وسلم نے ( اپنی ازواج سے ) اس بات پر علیحدگی اختیار کر لی تھی کھ عائشھ رضی اللھ عنھا سے حفصھ رضی اللھ عنھ نے پوشیدھ بات کھھ دی تھی ۔ حضور اکرم صلی اللھ علیھ وسلم نے اس انتھائی خفگی کی وجھ سے جو آپ کو ھوئی تھی ، فرمایا تھا کھ میں اب ان کے پاس ایک مھینے تک نھیں جاؤں گا ۔ اور یھی موقعھ ھے جس پر اللھ تعالیٰ نے آپ صلی اللھ علیھ وسلم کو متنبھ کیا تھا ۔ پھر جب انتیس دن گزر گئے تو آپ عائشھ رضی اللھ عنھا کے گھر تشریف لے گئے اور انھیں کے یھاں سے آپ نے ابتداء کی ۔ عائشھ رضی اللھ عنھا نے کھا کھ آپ نے تو عھد کیا تھا کھ ھمارے یھاں ایک مھینے تک نھیں تشریف لائیں گے ۔ اور آج ابھی انتیسویں کی صبح ھے ۔ میں تو دن گن رھی تھی ۔ نبی کریم صلی اللھ علیھ وسلم نے فرمایا ، یھ مھینھ انتیس دن کا ھے اور وھ مھینھ انتیس ھی دن کا تھا ۔ عائشھ رضی اللھ عنھا نے بیان کیا کھ پھر وھ آیت نازل ھوئی جس میں ( ازواج النبی کو ) اختیار دیا گیا تھا ۔ اس کی بھی ابتداء آپ نے مجھ ھی سے کی اور فرمایا کھ میں تم سے ایک بات کھتا ھوں ، اور یھ ضروری نھیں کھ جواب فوراً دو ، بلکھ اپنے والدین سے بھی مشورھ کر لو ۔ عائشھ رضی اللھ عنھا نے بیان کیا کھ آپ کو یھ معلوم تھا کھ میرے ماں باپ کبھی آپ سے جدائی کا مشورھ نھیں دے سکتے ۔ پھر آپ نے فرمایا کھ اللھ تعالیٰ نے فرمایا ھے کھ ” اے نبی ! اپنی بیویوں سے کھھ دو “ اللھ تعالیٰ کے قول عظیما تک ۔ میں نے عرض کیا کیا اب اس معاملے میں بھی میں اپنے والدین سے مشورھ کرنے جاؤں گی ! اس میں تو کسی شبھ کی گنجائش ھی نھیں ھے ۔ کھ میں اللھ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کرتی ھوں ۔ اس کے بعد آپ نے اپنی دوسری بیویوں کو بھی اختیار دیا اور انھوں نے بھی وھی جواب دیا جو عائشھ رضی اللھ عنھا نے دیا تھا ۔

Share »

Book reference: Sahih Bukhari Book 46 Hadith no 2468
Web reference: Sahih Bukhari Volume 3 Book 43 Hadith no 648


حَدَّثَنَا ابْنُ سَلاَمٍ، حَدَّثَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ آلَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، وَكَانَتِ انْفَكَّتْ قَدَمُهُ فَجَلَسَ فِي عِلِّيَّةٍ لَهُ، فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ قَالَ ‏"‏ لاَ، وَلَكِنِّي آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا ‏"‏‏.‏ فَمَكُثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ نَزَلَ، فَدَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ‏.‏

Narrated Anas: Allah's Messenger (PBUH) took an oath that he would not go to his wives for one month as his foot had been sprained. He stayed in an upper room when `Umar went to him and said, "Have you divorced your wives?" He said, "No, but I have taken an oath that I would not go to them for one month." The Prophet stayed there for twenty-nine days, and then came down and went to his wives. ھم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا ، کھا ھم سے مروان بن معاویھ فزاری نے بیان کیا ، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس رضی اللھ عنھ نے بیان کیا کھ رسول اللھ صلی اللھ علیھ وسلم نے اپنی ازواج کے پاس ایک مھینھ تک نھ جانے کی قسم کھائی تھی ، اور ( ایلاء کے واقعھ سے پھلے 5 ھ میں ) آپ صلی اللھ علیھ وسلم کے قدم مبارک میں موچ آ گئی تھی ۔ اور آپ اپنے بالا خانھ میں قیام پذیر ھوئے تھے ۔ ( ایلاء کے موقع پر ) حضرت عمر رضی اللھ عنھ آئے اور عرض کیا ، یا رسول اللھ صلی اللھ علیھ وسلم ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ھے ؟ آپ صلی اللھ علیھ وسلم نے فرمایا کھ نھیں ۔ البتھ ایک مھینے کے لیے ان کے پاس نھ جانے کی قسم کھا لی ھے ۔ چنانچھ آپ انتیس دن تک بیویوں کے پاس نھیں گئے ( اور انتیس تاریخ کو ھی چاند ھو گیا تھا ) اس لیے آپ بالاخانے سے اترے اور بیویوں کے پاس گئے ۔

Share »

Book reference: Sahih Bukhari Book 46 Hadith no 2469
Web reference: Sahih Bukhari Volume 3 Book 43 Hadith no 649



Copyright © 2024 PDF9.COM | Developed by Rana Haroon | if you have any objection regarding any shared content on PDF9.COM, please click here.