حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ حَدَّثَهُمْ قَالَ صَعِدَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أُحُدًا، وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ وَقَالَ ‏"‏ اسْكُنْ أُحُدُ ـ أَظُنُّهُ ضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ ـ فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلاَّ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ ‏"‏‏.‏

Narrated Anas: The Prophet (PBUH) ascended the mountain of Uhud and Abu Bakr, `Umar and `Uthman were accompanying him. The mountain gave a shake (i.e. trembled underneath them) . The Prophet (PBUH) said, "O Uhud ! Be calm." I think that the Prophet (PBUH) hit it with his foot, adding, "For upon you there are none but a Prophet, a Siddiq and two martyrs." ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ، کہا ہم سے عثمان بن موہب نے بیان کیا کہ مصر والوں میں سے ایک نام نامعلوم آدمی آیا اور حج بیت اللہ کیا ، پھر کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ کسی نے کہا کہ یہ قریشی ہیں ۔ اس نے پوچھا کہ ان میں بزرگ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمر ہیں ۔ اس نے پوچھا ۔ اے ابن عمر ! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ مجھے بتائیں گے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی ؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا ۔ پھر انہوں نے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدرکی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ایسا ہوا تھا ۔ اس نے پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہیں تھے ۔ جواب دیا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے ۔ یہ سن کر اس کی زبان سے نکلا اللہ اکبر تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قریب آ جاؤ ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا ۔ احد کی لڑائی سے فرار کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے ۔ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہیں ( مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا ) اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا اور بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر وادی مکہ میں کوئی بھی شخص ( مسلمانوں میں سے ) عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ عزت والا اور بااثر ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو ان کی جگہ وہاں بھیجتے ، یہی وجہ ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( قریش سے باتیں کرنے کے لیے ) مکہ بھیج دیا تھا اور جب بیعت رضوان ہو رہی تھی تو عثمان رضی اللہ عنہ مکہ جا چکے تھے ، اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے ۔ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا ، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا ۔ ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے سعید نے ، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ کانپنے لگا ۔ آپ نے اس پر فرمایا احد ٹھہر جا میرا خیال ہے کہ حضور نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا کہ تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دوشہید ہی تو ہیں ۔

Book Ref: Sahih Bukhari Book 62 Hadith 3699
Web Ref:  Sahih Bukhari Vol 5 Book 57 Hadith 49