حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْمَدِينَةِ وَهْوَ مُرْدِفٌ أَبَا بَكْرٍ، وَأَبُو بَكْرٍ شَيْخٌ يُعْرَفُ، وَنَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شَابٌّ لاَ يُعْرَفُ، قَالَ فَيَلْقَى الرَّجُلُ أَبَا بَكْرٍ فَيَقُولُ يَا أَبَا بَكْرٍ، مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْكَ فَيَقُولُ هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ. قَالَ فَيَحْسِبُ الْحَاسِبُ أَنَّهُ إِنَّمَا يَعْنِي الطَّرِيقَ، وَإِنَّمَا يَعْنِي سَبِيلَ الْخَيْرِ، فَالْتَفَتَ أَبُو بَكْرٍ، فَإِذَا هُوَ بِفَارِسٍ قَدْ لَحِقَهُمْ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا فَارِسٌ قَدْ لَحِقَ بِنَا. فَالْتَفَتَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " اللَّهُمَّ اصْرَعْهُ ". فَصَرَعَهُ الْفَرَسُ، ثُمَّ قَامَتْ تُحَمْحِمُ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مُرْنِي بِمَا شِئْتَ. قَالَ " فَقِفْ مَكَانَكَ، لاَ تَتْرُكَنَّ أَحَدًا يَلْحَقُ بِنَا ". قَالَ فَكَانَ أَوَّلَ النَّهَارِ جَاهِدًا عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَكَانَ آخِرَ النَّهَارِ مَسْلَحَةً لَهُ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَانِبَ الْحَرَّةِ، ثُمَّ بَعَثَ إِلَى الأَنْصَارِ، فَجَاءُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمُوا عَلَيْهِمَا، وَقَالُوا ارْكَبَا آمِنَيْنِ مُطَاعَيْنِ. فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ، وَحَفُّوا دُونَهُمَا بِالسِّلاَحِ، فَقِيلَ فِي الْمَدِينَةِ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ، جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَأَشْرَفُوا يَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ، جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ. فَأَقْبَلَ يَسِيرُ حَتَّى نَزَلَ جَانِبَ دَارِ أَبِي أَيُّوبَ، فَإِنَّهُ لَيُحَدِّثُ أَهْلَهُ، إِذْ سَمِعَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ وَهْوَ فِي نَخْلٍ لأَهْلِهِ يَخْتَرِفُ لَهُمْ، فَعَجِلَ أَنْ يَضَعَ الَّذِي يَخْتَرِفُ لَهُمْ فِيهَا، فَجَاءَ وَهْىَ مَعَهُ، فَسَمِعَ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَىُّ بُيُوتِ أَهْلِنَا أَقْرَبُ ". فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هَذِهِ دَارِي، وَهَذَا بَابِي. قَالَ " فَانْطَلِقْ فَهَيِّئْ لَنَا مَقِيلاً ". قَالَ قُومَا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ. فَلَمَّا جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَّكَ جِئْتَ بِحَقٍّ، وَقَدْ عَلِمَتْ يَهُودُ أَنِّي سَيِّدُهُمْ وَابْنُ سَيِّدِهِمْ، وَأَعْلَمُهُمْ وَابْنُ أَعْلَمِهِمْ، فَادْعُهُمْ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ، فَإِنَّهُمْ إِنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ قَالُوا فِيَّ مَا لَيْسَ فِيَّ. فَأَرْسَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَقْبَلُوا فَدَخَلُوا عَلَيْهِ. فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ، وَيْلَكُمُ اتَّقُوا اللَّهَ، فَوَاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا، وَأَنِّي جِئْتُكُمْ بِحَقٍّ فَأَسْلِمُوا ". قَالُوا مَا نَعْلَمُهُ. قَالُوا لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَهَا ثَلاَثَ مِرَارٍ. قَالَ " فَأَىُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ ". قَالُوا ذَاكَ سَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا، وَأَعْلَمُنَا وَابْنُ أَعْلَمِنَا. قَالَ " أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ ". قَالُوا حَاشَا لِلَّهِ، مَا كَانَ لِيُسْلِمَ. قَالَ " أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ ". قَالُوا حَاشَا لِلَّهِ، مَا كَانَ لِيُسْلِمَ. قَالَ " يَا ابْنَ سَلاَمٍ، اخْرُجْ عَلَيْهِمْ ". فَخَرَجَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ، اتَّقُوا اللَّهَ، فَوَاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَّهُ جَاءَ بِحَقٍّ. فَقَالُوا كَذَبْتَ. فَأَخْرَجَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.
Narrated Anas bin Malik: Allah's Messenger (PBUH) arrived at Medina with Abu Bakr, riding behind him on the same camel. Abu Bakr was an elderly man known to the people, while Allah's Messenger (PBUH) was a youth that was unknown. Thus, if a man met Abu Bakr, he would say, "O Abu Bakr! Who is this man in front of you?" Abu Bakr would say, "This man shows me the Way," One would think that Abu Bakr meant the road, while in fact, Abu Bakr meant the way of virtue and good. Then Abu Bakr looked behind and saw a horse-rider pursuing them. He said, "O Allah's Messenger (PBUH)! This is a horse-rider pursuing us." The Prophet (PBUH) looked behind and said, "O Allah! Cause him to fall down." So the horse threw him down and got up neighing. After that the rider, Suraqa said, "O Allah's Prophet! Order me whatever you want." The Prophet said, "Stay where you are and do not allow anybody to reach us." So, in the first part of the day Suraqa was an enemy of Allah's Prophet and in the last part of it, he was a protector. Then Allah's Apostle alighted by the side of the Al-Harra and sent a message to the Ansar, and they came to Allah's Prophet and Abu Bakr, and having greeted them, they said, "Ride (your she-camels) safe and obeyed." Allah's Messenger (PBUH) and Abu Bakr rode and the Ansar, carrying their arms, surrounded them. The news that Allah's Prophet had come circulated in Medina. The people came out and were eagerly looking and saying "Allah's Prophet has come! Allah's Prophet has come! So the Prophet (PBUH) went on till he alighted near the house of Abu Ayub. While the Prophet (PBUH) was speaking with the family members of Abu Ayub, `Abdullah bin Salam heard the news of his arrival while he himself was picking the dates for his family from his family garden. He hurried to the Prophet (PBUH) carrying the dates which he had collected for his family from the garden. He listened to Allah's Prophet and then went home. Then Allah's Prophet said, "Which is the nearest of the houses of our kith and kin?" Abu Ayub replied, "Mine, O Allah's Prophet! This is my house and this is my gate." The Prophet (PBUH) said, "Go and prepare a place for our midday rest." Abu Ayub said, "Get up (both of you) with Allah's Blessings." So when Allah's Prophet went into the house, `Abdullah bin Salam came and said "I testify that you (i.e. Muhammad) are Apostle of Allah and that you have come with the Truth. The Jews know well that I am their chief and the son of their chief and the most learned amongst them and the son of the most learned amongst them. So send for them (i.e. Jews) and ask them about me before they know that I have embraced Islam, for if they know that they will say about me things which are not correct." So Allah's Messenger (PBUH) sent for them, and they came and entered. Allah's Messenger (PBUH) said to them, "O (the group of) Jews! Woe to you: be afraid of Allah. By Allah except Whom none has the right to be worshipped, you people know for certain, that I am Apostle of Allah and that I have come to you with the Truth, so embrace Islam." The Jews replied, "We do not know this." So they said this to the Prophet and he repeated it thrice. Then he said, "What sort of a man is `Abdullah bin Salam amongst you?" They said, "He is our chief and the son of our chief and the most learned man, and the son of the most learned amongst us." He said, "What would you think if he should embrace Islam?" They said, "Allah forbid! He can not embrace Islam." He said, " What would you think if he should embrace Islam?" They said, "Allah forbid! He can not embrace Islam." He said, "What would you think if he should embrace Islam?" They said, "Allah forbid! He can not embrace Islam." He said, "O Ibn Salam! Come out to them." He came out and said, "O (the group of) Jews! Be afraid of Allah except Whom none has the right to be worshipped. You know for certain that he is Apostle of Allah and that he has brought a True Religion!' They said, "You tell a lie." On that Allah's Messenger (PBUH) turned them out. ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا ، کہا مجھ سے میرے باپ عبدالوارث نے بیان کیا ، ان سے عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بوڑھے ہو گئے تھے اور ان کو لوگ پہچانتے بھی تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی جوان معلوم ہوتے تھے اور آپ کو لوگ عام طور سے پہچانتے بھی نہ تھے ۔ بیان کیا کہ اگر راستہ میں کوئی ملتا اور پوچھتا کہ اے ابوبکر ! یہ تمہارے ساتھ کون صاحب ہیں ؟ تو آپ جواب دیتے کہ یہ میرے ہادی ہیں ، مجھے راستہ بتاتے ہیں پوچھنے والا یہ سمجھتا کہ مدینہ کا راستہ بتلانے والا ہے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مطلب اس کلام سے یہ تھا کہ آپ دین وایمان کا راستہ بتلاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے مڑے تو ایک سوار نظر آیا جو ان کے قریب آچکا تھا ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ سوار آ گیا اور اب ہمارے قریب ہی پہنچنے والا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے مڑ کر دیکھا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اسے گرادے چنانچہ گھوڑی نے اسے گرا دیا ۔ پھر جب وہ ہنہناتی ہوئی اٹھی تو سوار ( سراقہ ) نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی جگہ کھڑا رہ اور دیکھ کسی کو ہماری طرف نہ آنے دینا ۔ راوی نے بیان کیا کہ وہی شخص جو صبح آپ کے خلاف تھا شام جب ہوئی تو آپ کا وہ ہتھیار تھا دشمن کو آپ سے روکنے لگا ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ( مدینہ پہنچ کر ) حرہ کے قریب اترے اور انصار کو بلابھیجا ۔ اکابر انصار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں کو سلام کیا اور عرض کیا آپ سوار ہو جائیں آپ کی حفاظت اور فرمانبرداری کی جائے گی ، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سوار ہو گئے اور ہتھیار بند انصار نے آپ دونوں کو حلقہ میں لے لیا ۔ اتنے میں مدینہ میں بھی سب کو معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا چکے ہیں سب لوگ آپ کو دیکھنے کے لئے بلندی پر چڑھ گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے نبی آ گئے ۔ اللہ کے نبی آ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف چلتے رہے اور ( مدینہ پہنچ کر ) حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کے گھرکے پاس سواری سے اتر گئے ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ( ایک یہودی عالم نے ) اپنے گھر والوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنا ، وہ اس وقت اپنے ایک کھجور کے باغ میں تھے اور کھجور جمع کر رہے تھے انہوں نے ( سنتے ہی ) بڑی جلدی کے ساتھ جو کچھ کھجور جمع کر چکے تھے اسے رکھ دینا چاہا جب آپ کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے تو جمع شدہ کھجوریں ان کے ساتھ ہی تھیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اپنے گھر واپس چلے آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے ( نانہالی ) اقارب میں کس کا گھر یہاں سے زیادہ قریب ہے ؟ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرا اے اللہ کے نبی ! یہ میرا گھر ہے اور یہ اس کا دروازہ ہے فرمایا ( اچھا تو جاؤ ) دوپہر کو آرام کرنے کی جگہ ہمارے لئے درست کرو ہم دوپہر کو وہیں آرام کریں گے ۔ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پھر آپ دونوں تشریف لے چلیں ، اللہ مبارک کرے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ان کے گھر میں داخل ہوئے تھے کہ عبداللہ بن سلام بھی آ گئے اور کہا کہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ، اور یہودی میرے متعلق اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں ان کا سردار ہوں اور ان کے سردار کا بیٹا ہوں اور ان میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور ان کے سب سے بڑے عالم کا بیٹا ہوں ، اس لئے آپ اس سے پہلے کہ میرے اسلام لانے کا خیال انہیں معلوم ہو ، بلایئے اور ان سے میرے بارے میں دریافت فرما یئے ، کیونکہ انہیں اگر معلوم ہو گیا کہ میں اسلام لاچکا ہوں تو میرے متعلق غلط باتیں کہنی شروع کر دیں گے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور جب وہ آپ کی خدمت حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا اے یہودیو ! افسوس تم پر ، اللہ سے ڈرو ، اس ذات کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول بر حق ہوں اور یہ بھی کہ میں تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں ، پھر اب اسلام میں داخل ہو جاؤ ، انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح تین مرتبہ کہا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اچھا عبداللہ بن سلام تم میں کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے کہا ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ، ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے اور ہمارےسب سے بڑے عالم کے بیٹے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ اسلام لے آئیں ۔ پھر تمہار ا کیا خیال ہو گا ۔ کہنے لگے اللہ ان کی حفاظت کرے ، وہ اسلام کیوں لانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن سلام ! اب ان کے سامنے آ جاؤ ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر آ گئے اور کہا اے یہود ! خدا سے ڈرو اس اللہ کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں تمہیں خوب معلوم ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ۔ یہودیوں نے کہا تم جھوٹے ہو ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے باہر چلے جانے کے لئے فرمایا ۔
Book Ref: Sahih Bukhari Book 63 Hadith 3911
Web Ref: Sahih Bukhari Vol 5 Book 58 Hadith 250